بچے کا اس طرح سے سونا بچے کو ذہین اور صحت مند بناتا ہے۔

بچے کو ذہین

فہد نیوز!  امام علی ؓ کے پاس ایک عورت آئی اور دستِ ادب کو جوڑ کر عرض کرنے لگی یا علی میں چاہتی ہوں کہ میرا بچہ صحت مند ہو ذہین ہو میں ایسا کیا کروں تو امام علی ؑ نے فرمایا اے عورت تم اپنے بچے کو بائیں طرف سلایا کرو اور اس کے ماتھے پر ایک مرتبہ سورہ فاتحہ دم کیا کرو اس نے عرض کیا یا علی اگر میں یہی سورہ فاتحہ دائیں طرف سلا کر پڑھو ں توبس یہ کہنا تھا تو امام علی ؓ

نے فرمایا اے عورت یاد رکھنا جب ماں کے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے تو بچہ ماں کے دل کی دھڑکن کو محسوس کرتا ہے لیکن جب وہ ماں کے جسم سے جدا ہوتا ہے تو اسے وہ دل کے دھڑکنے کی آواز سنائی نہیں دیتی اور بچہ بے چین رہتا ہے اسے اکیلا پن محسوس ہوتا ہے اس لئے اگر تم اپنے بچے کو بائیں طرف سلاؤ گی تو وہ دل کے قریب ہو گا اور وہ دل کی آواز کو محسوس کرتا رہے گا پُرسکون نیند کرے گا اور اس وقت اس کا اطمینان میں رہنا سکون میں رہنا اس کی ذہانت کو بڑھائے گا اور اسی سے اس کی صحت بھی اللہ کے کرم سے بہتر رہے گی۔بچے کی پیدائش کے بعد پہلے گھنٹے میں چند آسان اور سادہ کام بچے کی زندگی بچانے اور لمبے عرصے کے لیے اسے صحت مند رہنے میں مدد دیتے ہیں۔یہ یقین کریں کہ بچہ اچھی طرح سانس لے رہا ہے۔اسے گرم اور خشک رکھیں، ماں کے

سینے پر اس طرح لٹا دیں کہ درمیان میں کوئی کپڑا نہ ہو۔ماں کی چھاتی سے دودھ پینے میں اس کی مدد کریں۔کیا بچہ اچھی طرح سانس لے رہا ہے؟ جب بچہ پیدا ہو رہا ہو اور آپ اسے خشک کرکے ماں کی چھاتی سے لگا رہی ہوں، اس وقت غور سے دیکھیں کہ کیا وہ اچھی طرح سانس لے رہا ہے۔ یہ کام فوراً اور تیزی سے کرنے سےآپ ایسے بچے کی جان بچا لیں گی جس کی سانس نہ آرہی ہو۔ .. بچے کے منھ سے مواد نکالیں۔ انگلی پر صاف کپڑا لپیٹیں اور بچے کا منھ صاف کریں یا بلب سرنج یا سکشن پمپ کی مدد سے پہلے منھ اور پھر ناک سے مواد صاف کریں۔ ہاتھ کی مضبوط گرفت کے ساتھ بچے کی کمر کو اوپر نیچے سہلائیں۔ اسی کے ساتھ تولیے یا صاف کپڑے سے بچے کا جسم خشک کریں۔ تولیے سے اس کے تلو ٔں کو بھی رگڑیں۔ اس سے بچے کو گہرا اور اچھا سانس لینے میں مدد ملے گی۔

اگر بچہ اب بھی سانس نہ لے یا سانس لینا بند کردے تو اس کی جان بچانے کے لے اسے سانس دلوائیں۔جان بچانے کے لیے سانس دلانا: بچے کو صاف اور ٹھوس جگہ لٹا دیں۔ میز یا فرش پر لٹاتے وقت کپڑا اس طرح بچھائیں کہ وہ اس کے جسم کے نیچے بھی ہو اور اوپر سے بھی اسے ڈھانپ سکے تاکہ بچے کا سینہ گرم رہے۔ بچے کی ٹھوڑی ذرا سی اوپر اٹھائیں تاکہ ٹھوری اوپر چھت کی طرف ہوجائے۔ بچے کے کندھوں کے نیچے تہہ کیا ہوا کپڑا رکھنے سے اس کام میں مدد ملے گی اور سانس لینے کے لیے حلق کھلا رہے گا۔اپنے منھ سے ہوا بچے کے اندر پھونکیں۔ ہلکے اور چھوٹے سانس لیں۔ ہر ایک یا دو سیکنڈ کے بعد ایک چھوٹی پھونک جلدی سے ماریں۔ احتیاط کریںکہ پھونک بہت تیز اور اتنی سخت نہ ہو، کہ بچے کے ننھے اور کمزور پھیپھڑوں کو نقصان پہنچے۔ہر پھونک کے بعد

چند لمحے انتظار کریں تاکہ بچہ سانس باہر نکال سکے۔اگر لگے کہ ہوا اندر نہیں جا رہی تو رک جائیں۔ بچے کی ٹھوڑی اوپر اٹھائیں تاکہ حلق کھل جائے۔ اب دوبارہ کوشش کریں۔ اگر بچہ رونا شروع کر دے یا ہر منٹ میں کم از کم 30 سانسیں خود لینے لگے، تو اس کا مطلب ہے کہ اب بچہ ٹھیک ہے۔ اسے ماں کے سینے پر لٹا دیں اور گرم رکھیں۔ امید ہے کہ اب وہ ٹھیک رہے گا۔ لیکن اگلے چند گھنٹوں تک اس پر نظر رکھیں۔ کیا بچے کی جِلد کا رنگ ٹھیک ہے؟کیا وہ آسانی سے سانس لے رہا ہے؟ اگر بچے کا جسم یا اس کے منھ کے آس پاس کا حصہ نیلا ہونے لگے یا اسے سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہو تو فوراً مدد حاصل کریں۔جان بچانے کے لیے کی جانے والی سانس دلانے کی اس مشق کے 20 منٹ بعد بھی اگر بچہ خود سے سانس نہ لے رہا ہو تو زیادہ اندیشہ یہ ہے کہ وہ مر چکا ہے۔ دکھ کے ان

لمحوں میں بچے کے گھر والوں کے نزدیک رہیں۔ انھیں آپ کی توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Leave a Comment