حضرت بلال ؓ جب کمزور ہو گئے اور ان کے چہرے پر م وت کے آثار نما یاں ہو ئے تو

بلال

حضرت سید نا بلال ؓ کمزور ہو گئے اور ان کے چہرے پر م وت کے آثار نما یا ں ہوئے تو ان کی بیوی نے کہا: ہائے میں لٹ گئی آپ ؓ نے فر ما یا کہ یہ تو خوشی کا موقع ہے۔ اب تک میں زندگی کی مصیبتوں میں مبتلا تھااور تو کیا جانے کی م وت کس قدر عمدہ اور آسا ئش والی شئے کا نام ہے اس وقت آپ ؓ کا چہر گلاب کی مانند دمک رہا تھا اورآ نکھوں میں موجود نور

اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ کا لا رنگ حقارت کی دلیل نہیں اور آنکھ کی پتلی بھی سیاہ ہوتی ہے حضرت سیدنا بلال ؓ کی بیوی بولی کہ آپ ؓ رخصت ہو کر مسافر بن رہے ہیں اور اپنے اہل و عیال سے دور ہو رہے ہیں۔ آپ ؓ نے فر ما یا کہ ایسا ہر گز نہیں بلکہ آج رات میری جان سفر کے بعد واپس لوٹ رہی ہے بیوی بولی یہ تو بڑے دکھ کا مقام ہے؟ آپ ؓ نے فر ما یا کہ نہیں بلکہ یہ تو خوش نصیبی ہے بیوی بو لی کہ اب ہم آپ ؓ کا چہرہ کیسے دیکھ سکیں گے؟ آپ ؓ نے فر ما یا کہ اب میں بارگاہ الٰہی میں ہوں گا۔ اور اس کا حلقہ کا ہر ایک کے ساتھ پیو ستہ ہے اگر تو اپنی نظر بند کر ے اور پستی کی جانب نہ جائے تو اس حلقہ میں نور الٰہی اس طرح چمکتا ہے جس طرح انگو ٹھی میں

جڑا نگینہ ۔ میں اب معارف اور اسرار کا خزانہ بن گیا ہوں۔ اور اس جسم میں اسے سنبھالنے کی سکت نہیں ہے جب گدھا تھا تب میری روح اس جسم میں سما سکتی تھی اب جب کہ میں معارف کا شاہ بن گیا ہو تو اس لیے وسیع جگہ کی ضرورت ہے اور نبی اکرم ﷺ بھی اسی وجہ سے دنیا کو ترک کر کے آخرت کی جا نب روانہ ہو ئے جو لوگ مردہ دل ہوتے ہیں ان کے لیے دنیا عزت کی جگہ ہے اور اہل ِ دنیا کے لیے یہ وسیع جب کہ اہلِ باطن کے لیے تنگ ہے۔ اگر دنیا تنگ نہیں ہے پھر یہاں کے رہنےو الوں میں ہنگامہ آرائی کیسی ہے یہاں تنگی کا احساس اس وقت ہوتا ہے۔ جب انسان ہوتا ہے اور وسعت کے باوجود یہ دنیا اسے تنگ محسوس ہوتی ہے۔ حضر ت بلال ؓ نے فر ما یا کہ

زندگی کی حالت میں روح جسم میں ٹیڑھی رہتی ہے اس طرح بچہ ماں کے پیٹ میں ٹیڑھا ہوتا ہے جس طرح بچے کی پیدائش کے وقت ماں کو درد کی تکلیف برداشت کر نا پڑتی ہے م وت کے وقت جب روح پرواز کر تی ہے اور م وت کی تکلیف جسم کو ہوتی ہے اور وہ اس درد کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان دوسرے کے درد سے نا واقف ہے۔ ما سوا کیوں کہ اللہ عز و جل کی رحمت سے ہر ایک کے احوال سے واقف ہوتے تھے۔

Leave a Comment