رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو بہت غصے کی حالت میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو بہت غصے کی حالت میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں۔ اگر کوئی غصیلہ شخص اس کو پڑھ لے تو وہ اس کا غصہ ختم کر دے گا اور وہ کلمہ یہ ہے اللھم انی اوعوز بک من شیطن الرجیم اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور غصے پر قابو پانے کی طاقت دے۔ اگر کسی انسان کو بہت زیادہ غصہ آتا ہو تو ہر روز اسے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ کیونکہ غصہ کرنے والا انسان اپنا اور دوسروں کا نقصان کرتا ہے۔ اس تحریر میں غصہ اور شدید غم بھگانے کا وظیفہ پیش کیا جارہا ہے ۔ جو کہ نبوی وظیفہ ہے حدیث پاک سے اس کا حوالہ بھی پیش کیا جائے گا اور یہ ایک حدیث کا بھی جزو ہے کیونکہ غصہ حرام ہے اور یہ بہت بڑے بڑے نقصان کروا دیتا ہے ۔
رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پاس دو آدمی جھگڑنے لگے ۔سخت طیش میں ایک دوسرے کو گالیاں بک رہا تھا اور غصے سے اس کا چرہ سرخ ہو گیا تھا ۔یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں ، اگر یہ شخص وہ کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے گا اور وہ ہے اَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔یہ بخاری کی 6115 حدیث ہے اس کے راوی سیدنا سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔غصہ آنا انسان کی اور اس پر قابو پانا مومن کی نشانی ہے۔ غصہ حماقت سے شروع ہوکر ندامت پر ختم ہوتا ہے۔غصہ کرنا دوسرے کی غلطی کی سزا خود کو دینا ہے۔غصے کا منفی انداز میں
اظہار بعض اوقات پریشانی کا سبب بن جاتا ہے ، خاص طور پر تب جب اس سے کسی کو نقصان پہنچنے یا کسی کے جذبات مجروح ہونے کا خطرہ ہو ۔ غصے کے وقت سہی فیصلہ لینا یا سوچنا سمجھنا اس لیے بھی مشکل ہوجاتا ہے چونکہ غصہ بن بلائے آتا ہے اور ذہن کو کچھ دیر کے لیے سن کردیتا ہے۔انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے اندر سے بچہ ہی رہتا ہے، اس وجہ سے لوگ بچوں کی طرح چاہتے ہیںکہ ہر چیز ان کی مرضی کے مطابق ہو اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ غصے میں آجاتے ہیں۔آج کے دور میں لوگوں میں قوت برداشت بہت کم ہو گئی ہے ۔ جس کی وجہ سے انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصہ آجاتا ہے۔اگرکوئی آپ کو دھوکہ دے، آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرئے،
یاآپ کو بنا کسی وجہ کے تنقید کا نشانہ بنائے تو آپ کو غصہ آنے لگتا ہے ۔ غصے کا تعمیری انداز میں اظہار اکثر مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ غصہ کے وقت انسان جذبات میں بہہ کر صحیح اور غلط کی تمیز بھول جاتا ہے اور اس کا غصہ معاملات کو بہتر بنانے کے بجائے ان کے بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے ۔تم انسان کے دل میں چاقو گھونپ کر باہر نکال سکتےہو لیکن چاقو کے باہر نکلنے کے بعد تم ہزار بار بھی معذرت کرو معافی مانگو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا وہ زخم اپنی جگہ باقی رہے گا۔ یاد رکھو زبان کا زخم چاقو سے کہیں بد تر اور دردناک ہوتا ہے۔ اس لیے غصے نہ کرؤ، کیونکہ قابل سے قابل آدمی کو بھی بے وقوف بنادیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کی عقل کا اندازہ غصے کی حالت میں لگانا چاہیے۔
غصہ وہ چیز ہے جس سے انسان کے اندر سخت ہیجان پیدا ہوتا ہے ، چہرہ سرخ ہوجاتا ہے ، دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے ، نبض کی رفتار تیز ہوجاتی ہے ، سانس چڑھنے لگتی ہے حتی کہ ایک سنجیدہ و خوبصورت انسان خوفناک اور وحشت ناک شکل اختیار کرلیتا ہے ۔صرف یہی نہیںغصے کے وجہ سے انسان ایسی حرکات کر بیٹھتا ہے جو اس کے لئے ہلاکت و بربادی کا سبب بن جاتی ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ انھیں تب غصہ آتا ہے جب کوئی غلط بات یا کام ہو۔ لیکن، بات تو تب ہے کہ کوئی گاڑی اونچے نیچے راستوں پر بھی اچھی چلے کیونکہ ہموار سڑک پر تو ہر گاڑی اچھی چلتی ہی ہے۔؎ایک لڑکے کو غصہ بہت زیادہ آتا تھا۔ بات بات پر طیش میں آجاتا تھا۔ اس کے باپ نے اس کو بولا کہ
اب جب بھی تمہیں غصہ آئے گا اور تم چیخو گے یا کسی کو مارو گے تو اس کے بعد تم نے باہر جا کردیوار میں ہتھوڑی سے کیل ٹھوکنا ہے۔ جیسے ہی لڑکا غصہ کرتا، با ہر جا کر دیوار میں کیل ٹھوکتا۔پہلے دن اس نے رات کو سونے سے پہلے جب کیل گنےتو پورے پینتیس کیل تھے۔ تھوڑا سا شرمندہ ہوا اور سمجھ گیا کہ اس کو علاج کی ضرورت تھی۔ اگلے دن پھر اسی طرح تیس کیل تھے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کیلوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی کیونکہ کیل ٹھوکنے میں جتنی دیر اور جان لگتی تھی لڑکا سوچتا تھا کہ اس سے بہت بہتر تھا کہ وہ غصہ نہ کرتا تو وہ اکثر خود کو روک لیتا۔اسی طرح کرتے کرتے ایک دن ایسا آیا کہ اسے کوئی کیل ٹھوکنا نہیں پڑا۔ چنانچہ اس نے اپنے باپ کو بتایا۔
باپ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور بولا کہ اب سے تمہاری نئی ڈیو ٹی ہے، اب جب بھی تم غصے کو کنٹرول کرو گے تو باہر جا کر پہلے سے لگائے ہوئے ایک کیل کو باہر نکال لینا۔۔ٹھیک ہے؟لڑکا مان گیا۔پھر جب بھی اس کو غصہ آتا اور وہ اپنا غصہ پی جاتا تو باہر جا کردیوار سے اپنے پرانے ٹھونکے ہوئے کیلوں میں سے ایک نکال لیتا۔ جس دن سارے کیل نکال لیے تو اس نے اپنے باپ کو بتایا کہ ابو میں نے آج سارےکیل نکال لیے ہیں۔ باپ نے اس کو شاباش دی اور بولا کہ آؤ میرے ساتھ دیوار کو دیکھیں۔ دیوار کی حالت دیکھی تو اس میں سوراخ ہی سوراخ تھے۔بیٹا تم نے اپنے غصے کو کنٹرول کر کے بہت اچھا کیالیکن اب اس دیوار کو ذرا غور سے دیکھو!! یہ پہلے جیسی نہیں رہی
اس میں یہ سوراخ کتنے برے لگ رہے ہیں ،جب تم غصے سے چیختے چللاتے ہو اور الٹی سیدھی باتیں کرتے ہو تو اس دیوار کی طرح تمہاری شخصیت پر بھی بہت برا اثر پڑتا ہےغصے میں بولے ہوئے الفاظ کسی کا بھی دل دکھاتے ہیں، لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ غصہ تو ختم ہو جاتا ہے مگر اس سے ہم دوسروں کو جو چوٹ لگاتے ہیں وہ ان سوراخوں کی طرح ان کے دل پر ہمیشہ اپنے نشان چھوڑ دیتی ہے۔ اس لیے یاد رکھو کہ غصہ بہترین دوستی اور مضبوط ترین ناتوں کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ اس سے حد درجہ پرہیز کرو۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو
Leave a Comment