رسولﷺ نے فرمایا کہ تین لوگ چائیے جتنی لمبی نماز پڑھیں ان کی نماز قبول نہیں ہوتی

نماز قبول

تین ایسے بدبخت ہیں اللہ ان کے فرائض اور نوافل دونوں میں سے کوئی بھی قبول نہیں کریں گے اللہ کے رسول کونسے لوگ ہیں فرائض بھی قبول نہیں نوافل بھی قبول نہیں تو بچا کیا فرمایا ایک وہ ہے جو والدین کا نافرمان ہے جو نیکی کر کے جتلانے والے ہے احسان ، اور تقدیر کو جھٹلانے والا ہے یہ انسان اس کے فرائض بھی اور نوافل بھی قبول نہیں ہیں۔ تیسرا بدبخت وہ ہے

جس کو آج لوگ بڑا خوش نصیب کہتے ہیں پریشانی کیا ہے آؤ پالمسٹ کے پاس لے جاؤں وہ بڑی پہنچی ہوئی سرکار ہیں آپ کا ہاتھ دیکھیں گے صرف انہوں نے زائچہ بنانا ہے لائنیں دیکھیں گے آپ کو سب کچھ کھول کر بتا دیں گے رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں صحیح الجامع کی روایت ہے 4059 جو شخص کسی بھی کاہن نجومی اور قیافہ شناس کے پاس آکر ہتھیلی کیا کرتا ہے صرف پوچھ لیتا ہے کہ میری قسمت کیسی ہے چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں صحیح الجامع کی روایت ہے 5939 جس نے اس سے پوچھا پھر اس کی بات کو سچا سمجھا ادھر اس کی بات کی تصدیق ہوگا اور ادھر قرآن کا منکر اور کافر ہوجائے گا

عقائد بچاؤ !اعمال بچاؤ! ویسے ایک چھوٹی سی گزارش ہے ماشاء اللہ پڑھے لکھے ہیں اگر یہ اتنا ہی پہنچا ہوا ہو تو یہ خود فٹ پاتھ پر بیٹھا ہو اگر کوئی اتنا پہنچا ہو تو یہ فٹ پاتھ پر دکھے کھاتا پھرتا ہو طوطا لے کر بیٹھا ہو بعض لوگوں کو اللہ نے بڑی جرات اور ہمت دی ہوتی ہے ہمارے ایک ساتھی تھے لاہور وہ کہتے ہیں آج میں نے یہ کام کرنا ہی کرنا ہے وہ خیر گئے ان کی دوشادیاں تھیں کہتے ہیں بہت پریشان ہوں شادی نہیں ہورہی اس نے دیکھاکہتا ہے جی ابھی چھ مہینے نہیں ہونے اس نے ایک لگائی اس نے کہا پہلے مجھ سے سنبھالی نہیں جارہی اس قدر انسان گرجاتا ہے اس قدر گر جاتا ہے شیطان نے بھی کہا تھا لم اکن لاسجد لبشر میں بشر کو سجدہ نہیں کرسکتا حالانکہ اللہ

کا حکم تھا لیکن اس نے کس قدر اپنے آپ کو تکبر کیا کیا انسان۔واضح رہے کہ اپنی آئندہ اچھی یا بری قسمت کے بارے معلوم کرنے کے لیے کسی نجومی اور کاہن کے پاس جاکر اس کو ہاتھ دکھانا اور آئندہ کی باتیں پوچھنا شرعا حرام اور ناجائز ہے۔ اور اس کی بتائی ہوئی بات کے درست ہونے کا عقیدہ رکھنا، آدمی کو کفر کے قریب کر دیتا ہے۔نیز نجومی اور کاہن کے پاس جانے والوں پر حدیث میں سخت وعید آئی ہے، چنانچہ ” جامع الترمذی ” میں ہے: جو آدمی کسی کاہن (نجومی) کے پاس آیا ( اور اس نے اس کی بتائی ہوئی بات کے صحیح ہونے کا عقیدہ رکھا) تو اس نے حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی شریعت کا انکار ( کفر ) کیا۔اسی طرح صحیح روایت میں ہے :

جو شخص کسی کاہن( نجومی) کے پاس جا کر کسی چیز کے متعلق دریافت کرے تو اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔ روایت ہے حضرت ابو امامہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تین شخصوں کی نماز ان کے کانوں سے آگے نہیں بڑھتی ۱؎ بھاگا ہوا غلام حتی کہ لوٹ آئے اور وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارےکہ اس کا خاوند ناراض ہو۲؎ اور قوم کا امام کہ قوم اسے ناپسند کرے۳؎ (ترمذی)اور فرمایا کہ یہ حدیث غریب ہے۔شرح ۱؎ یعنی قبولیت تو کیا بارگاہ ِ الٰہی میں پیش بھی نہیں ہوتی جیسے دوسری نیکیاں پیش ہوتی ہیں،رب تعالٰی فرماتا ہے:”اِلَیۡہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ”۔چونکہ کان انسان کا سب سے قریب عضو ہے کہ اس سے

ہی تلاوت کی آواز سنی جاتی ہے اس لیے اس کا ذکر ہوا۔ ۲؎عورت کی بدخُلقی اور نافرمانی کی وجہ سے اور اگر بلاوجہ ناراض ہے تو عورت کا کوئی نقصان نہیں اور اگر ظلم مرد کی طرف سے ہے تو حکم برعکس ہوگا یعنی بغیرعورت کو راضی کئے مرد کی نماز قبول نہ ہوگی۔(لمعات مرقاۃ) ۳؎ ظاہر یہ ہے کہ یہاں امام سے مراد نماز کا امام ہے اور ناپسندیدگی سے مراد امام کی جہالت یا بدعملی یا بدمذہبی کی وجہ سے ناراضی ہے ۔اگر لوگ دنیاوی وجہ سے ناراض ہوں تو اس کا اعتبار نہیں بلکہ اس صورت میں وہ لوگ گنہگار ہوں گے۔خیال رہے کہ ناراضی میں اکثر کا اعتبار ہے دو چار آدمی تو ہر ایک سے ناراض ہوتے ہی ہیں

Leave a Comment