ایک نوجوان کی نئی نئی شادی ہوئی وہ اپنے والد کے پاس جاتا ہے کہ وہ اس کے اس نئے ازدواجی سفر کے لیے برکت کی دعا کرےجب وہ اپنے والد کے پاس جاتا ہے اس کا والد اُس سے ایک کاغذ اور قلم مانگتا ہےلڑکا کہتا ہے : کیوں ابا جان ؟ اس وقت تو میرے پاس قلم اور کاغذ نہیں باپ کہتا ہے : تو جاؤ ایک کاغذ ،قلم اور ربڑ خرید کر لاؤلڑکا شدید حیرانگی کے ساتھ جاتا ہے اور
مطلوبہ چیزیں لیکر آجاتا ہے اور اپنے باپ کے پاس بیٹھ جاتا ہےباپ : لکھوکیا لکھوں جو جی چاہے لکھونوجوان ایک جملہ لکھتا ہےباپ کہتا ہے : اسے مٹا د ونوجوان مٹا دیتا ہےباپ : لکھوبیٹا : خدارا آپ کیا چاہتے ہیں ؟باپ کہتا ہے : لکھونوجوان پھر لکھتا ہےباپ کہتا ہے : مٹا دولڑکا مٹا دیتا ہےباپ پھر کہتا ہے : لکھونوجوان کہتا ہے : اللہ کے لیے مجھے بتائیں یہ سب کچھ کیا ہےباپ کہتا ہے : لکھونوجوان لکھتا ہےباپ کہتا ہے مٹا دو ۔ لڑکا مٹا دیتا ہےپھر باپ اُ س کی طرف دیکھتا ہے اور اُسے تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے :بیٹا شادی کے بعد اریزر کی ضرورت ہوتی ہےاگر ازدواجی زندگی میں تمہارے پاس ربڑ نہیں ہو گا جس سے تم اپنی بیوی کی غلطیاں اور کوتاہیاں کو مٹا کر معاف کر سکو
اور اسی طرح اگر تمہاری بیوی کے پاس ایریزر نہ ہوا جس سے وہ تمہاری غلطیاں اور ناپسندیدہ باتیں مٹا سکےاگر یہ سب کچھ نہ ہوا توتم اپنی ازدواجی زندگی کا صفحہ چند دنوں میں کالا کر لو گے.مزید بہترین آرٹیکل پڑھنے کے لئے نیچے سکرول کریں۔ سفی اللہ ایک نوجوان تھا ماں باپ اس کے مر چکے تھے کوئی لڑ کا بھی نہیں تھا۔ صرف وہ تھا اور اس کی خوبصورت بیوی ستارہ وہ بہت سلیقہ شعار اور با شعور عورت تھی اس کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی اور ضرورت سے زیادہ الفت تھی ایک دن کی جدائی اس پر گراں تھی اور اسی بے پایہ محبت نے اسے تلاشِ معاش پر نکلنے سے باز رکھا یعنی وہ گھر پر ہی رہتا اور کام پر نہیں جاتا تھا۔ ایک دن اس کی بیوی نے شوہر سے کہا کہ
باپ دادا کی پیدا کی ہوئی جائیداد کب تک ساتھ دے گی۔۔ اگر یہی رات دن رہا تو ایک دن غربت آکر رہے گی۔ اس کے شوہر نے کہا کیا کروں اور گھر کی جدائی اور تمہاری محبت با ہر جانے کی اجازت نہیں دیتی دل نہیں کرتا تم جیسی بھو لی او ر نو عمر لڑکی کو ایسے گھر میں اکیلا چھوڑ جا ؤں ۔اس کی بیوی نے کہا کہ زمانے کا یہی دستور ہے۔ کہ مرد کو باہر نکلنا پڑتا ہے تلا شِ معاش کے لیے تمہارے جیسا خیال اگر ہر کسی کا ہو جائے تو دنیا بند ہو جائے کسی بھی صورت میں جوان کا گھر چھوڑنے کو جی نہیں چا ہا رہا تھا۔ لیکن بیوی کی عاقلانہ گفتگو پوری طرح اس کی طرف اتر چکی تھی ۔ تو آخر کار گھر سے روانہ ہو گیا کسی دوسرے شہر تلا شِ معاش کے سلسلہ میں اس کے دوست
نے اسے سٹیشن چھوڑا پھر نہیں معلوم کہ کہاں گیا اور کیسے گیا پورا ایک سال ستارہ شوہر کی جدائی میں جلتی رلیں۔ پورا ایک سال اس نے نہایت ہی صبر و تحمل سے گزارا کیا۔ لیکن آخر کب تک عورت جوان تھی ایک روز نمازِ عشاء پڑھ کر سوئی تھی کہ حضرت ابلیس اپنے قائدے کے مطابق آ ئے اور بچاری ستارہ کو طرح طرح سےبہکا نا شروع کر دیا۔ اس حد تک ستارہ کے نفس امارہ اور نفس صالح میں جنگ ہونے لگی ابلیس نے نفسِ امارہ کو ترجیح دی اور نفس صالح کو شکست دے دی ۔ اس کے صبر کا پیمانہ لبر یز ہو گیا ستارہ کے محلے میں ایک بڑ ھیا رہتی تھی جو دور دور تک مشہور تھی۔ اسی وقت اس نے خادمہ کو بھیج کر بڑھیا کو بلو ایا اور خلوت میں لے جا کر اس سے
کچھ دیر تک سر گوشی کر تی رہی۔ بڑھیا تو بلانے کے ساتھ ہی سمجھ گئی کہ میں کس مقصد کے لیے بلوائی گئی ہوں۔ ستارہ نے اپنی خواہش بیان کی ساتھ یہ بھی کہا کہ جوان ہو اور اعلیٰ ظرف ہو تا کہ میرے راز کو افشاں نہ کرے۔ بڑھیا نے سر سے پاؤں تک ستارہ کی بلا ئیں لیں۔ اور بہت سی دعا ئیں دیں اور نکل آئی ستارہ کے گھر سے۔ راستے میں چلتے ہی چلتے نوجوان کو بڑ ھیا نے تجویز کر لیا۔ بڑھیا ایک نوجوان کو لے کر جا ہی رہی تھی کہ اس نوجوان نے کہا کہ مجھے حاجت ہوئی ہے۔ تم اسی جگہ ہی رکو میں یہیں آ جاؤں گا۔ بڑ ھیا وہیں رکی اور جوان طہارت سے جب فارغ ہو کر جب واپس چلا تو ایک ٹھوکر لگنے پر زمین پر گر پڑا لوٹے سمیت مٹی کا لوٹا تھا جو زمین پر گر پڑ ا۔
تو اس کا لوٹا ٹوٹ گیا ۔ بڑھیا نے دیکھا کہ نوجوان رو رہا ہے تو پوچھنے پر کہنے لگا کہ بڑھیا میں اس نقصان پر نہیں رو رہا تو بڑھیا نے پو چھا کہ کیا ہوا ہے تو نوجوان نے ایک چیخ ماری چودہ سال سے یہ لوٹا میرا ہم راز تھا کسی نے آج تک میرا سطر نہیں دیکھا ۔ ورنہ یہ تو میں بھی جا نتا ہوں کہ بازار میں اچھے سے اچھا لوٹا مل جاتا ہے اتنا کہہ کر وہ چلتا بنا اور بڑھیا ناکام ہو کر اپنی راہ پر چلی جب گھر پہنچی تو ستارہ بے چینی سے اس کا انتظار کر رہی تھی ستارہ خوشی سے اچھل پڑی کہ بڑھیا کوئی شکار ڈھونڈ کر لائی ہے اس کے لیے مگر بڑھیا نے کہا کہ صبر کے ساتھ اطمینا ن بھی رکھو۔ آج شکار مل تو گیا تھا مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ستارہ کو سارا ماجرہ بتا یا۔
تو ستارہ رونے لگی تو بڑھیا کے پوچھنے پر کہنے لگی کہ میری قابلِ نفرت زندگی پر مجھے افسوس ہوتا ہے شیطان کے بہکاوے میں آ کر میں نے اپنے شوہر کو دھو کا دینا چا ہا۔ ایسی بے حیا ئی کی زندگی سے تو موت ہی بہتر ہے۔ افسوس۔ نوجوان نے ایک بے جان لوٹے کو اپنا ستر د کھا نا پسند نہ کیا اور میں ایک غیر مرد کو اپنا ستر دکھانے کے لیے خوشی خوشی راضی ہو گئی۔ مجھے خاوند کا خیال بھی نہیں آیا۔ تو اس ستارہ نے توبہ کی اور دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے اور اس ستارہ کے طفیل بڑھیا نے بھی توبہ کی اور توبہ کرنے پر اللہ نے اس بڑھیا کے لیے ایسے رزق کا انتظام کر دیا کہ وہ حیران رہ گئی۔ ستارہ کا شوہر بہت پیسے کما کر لا یا اور اس کا شمار
شہر کے امیروں میں ہونے لگا تو ستارہ کی مدد کرنے کے لیے گھر کے کاموں میں اس بڑھیا کو بلو ا لیا اور اسے کام پر رکھ لیا۔ اس طرح وہ ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کر نے لگے۔
Leave a Comment